سوال:-اگر کسی ادمی کے پاس کئی بیگہے زمین ہو لیکن وہ سب زمین خالی ہو اور اس ادمی کے پاس زمین کے علاوہ کوئی مال اور رقم نہ ہو تو ایسے ادمی پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں ان زمینوں پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب:-سورۃ مسئلہ میں ایسے ادمی پر زکوۃ واجب نہیں ہے رہی بات زمینوں کی کہ اگر وہ زمین تجارت کی نیت سے نہ خریدا ہو یا کچھ بھی نیت نہ کی ہو تو ایسی زمین پر زکوۃ واجب نہیں ہے کیونکہ زمین مال نامی نہیں ہے اور اگر تجارت کی نیت سے خریدا ہو کہ اس سے نفع کمائے گا تو ایسی زمین اگر نصاب کے بقدر ہو تو ہر سال اس کی حساب کر کے کل کا ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔فقط واللہ اعلم

ومنها : كون النصاب ناميا حقيقية في التوالد والتناسل والتجارة .....: ان ينوي عنده عقد التجارة ان يكون المملوك للتجارة سواء كان ذلك على العقد شراء او ايجارة...(الهنديه: ٢٣٥/١ كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

هو نوعان: الحقيقي والتقديري ،فالحقيقي: الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات والتقديريى تمكنه من الزيادة....(شامي: ١٧٩/٣،كتاب الزكاة، زكريا ديوبند)

ومنها: كون المالي ناميا لانه معنى الزكاة وهو النماء لا يحصل الا من المال النامى..... بدائع الصنائع:٩١/٢،كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

سوال:-اگر کسی ادمی کے پاس کئی مکان ہو اور وہ صرف ایک مکن میں رہتا ہو باقی مکان کی ضرورت نہ ہو تو اس مکان پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب:-سورۃ مسئلہ میں اس مکان پر زکوۃ واجب نہیں ہے کیونکہ زکوۃ ان مالوں پر واجب ہوتی ہے جو مال نامی ہو یا سونا چاندی ہو وغیرہ اور مکان مال نامی میں سے نہیں ہے اس لیے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ومنها كون النصاب ناميا حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة او تقديرا....(الهنديه: ٢٣٥/١، كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

منها: كون المال ناميا لأن معنى الزكاة وهو النماء لا يحصل الا من المال النامى....(بدائع الصنائع:٩١/٢ ،كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)

هو نوعان: حقيقي وتقديري ،فالحقيقي: الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات والتقديريى تمكنه من الزيادة...(شامي: ١٧٩/٣،كتاب الزكاة ط: زكريا ديوبند)

سوال:-مدارس اور مکاتب میں زکوۃ کا مال دینا شرعا درست ہے یا نہیں ؟تفصیل کے ساتھ بیان کریں؟

جواب:-زکوۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک شرط ہے اور زکوۃ کے مصارف بھی متعین ہیں لہذا جن مدارس اور مکاتب میں زکوۃ کے مصارف نہ ہو تو اس کے لیے زکوۃ فطرہ وغیرہ وصول کرنا جائز نہیں ہے اس طرح کی رقومات مساجد وغیرہ کے کسی کام میں بھی لگانا درست نہیں ہے اور جن مدارس و مکاتب میں زکوۃ کے مصارف ہو تو پھر ان کے لیے زکوۃ وغیرہ کا مال لینا درست ہے۔فقط واللہ اعلم

ويشترط ان يكون الصرف تمليكا لا اباحة كما مره لا يصرف الى بناء نحو مسجد ولا الى كفن ميت وقضاء الدين واما الدين...(رد المختار: ٢٩١/٣،كتاب الزكاة، باب المصرف،زكريا ديوبند)

ولا يجوز ان يبني بالزكاة المسجد،و كذا القناطر والسقات والاصلاح الطرقات وكري الانهار.....(الهنديه: ٢٥٠/١ كتاب الزكاة، زكريا ديوبند)

مصرف الزكاة وفقير وهو من له ادنى شيء ومسكين ..... وعامل فيعطي بقدر عمله...(در المختار مع شامي:٢٨٣/٣-٢٩٠ كتاب الزكاة زكريا ديوبند

1 thought on “سوال:-اگر کسی ادمی کے پاس کئی بیگہے زمین ہو لیکن وہ سب زمین خالی ہو اور اس ادمی کے پاس زمین کے علاوہ کوئی مال اور رقم نہ ہو تو ایسے ادمی پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں ان زمینوں پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟”

Leave a Comment